امریکہ کے صدر براک اوباما نے عہدہ چھوڑنے کے تین دن قبل کل ایک بڑا فیصلہ
کرتے ہوئے امریکی فوجی چیلسی کی سزا کم کر دی ہے۔ چیلسی میننگ کو ان سفارتی
مراسلوں اور میدان جنگ کی رپورٹوں کو افشا کرنے کا مرتکب پایا گیا تھا جو وکی لیکس نے شائع کی تھیں۔ اس بنیاد پر 2013 میں انھیں غداری کا
مرتکب قرار دیا گیا تھا اور انھیں 35 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو کہ
17 مئی 2045 کو ختم ہونا تھی۔ واضح رہے کہ 29 سالہ چیلسی میننگ جنس تبدیل کرانے سے پہلے بریڈلی میننگ نام
کے مرد کی حیثیت سے فوج کے لیے خفیہ معلومات کا تجزیہ کرنے کی ماہر کے طور
پر کام کرتی تھیں۔ وکی لیکس کے عنوان کے تحت سات لاکھ سے زائد دستاویزات
اور ویڈیوز افشا کر دی گئی تھیں جو کہ امریکی تاریخ میں خفیہ مواد کو منظر
عام پر لانے کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ حالیہ کچھ دنوں میں وہائٹ ہاؤس نے اس
بات کا اشارہ دیا تھا کہ وہ چیلسی میننگ کی سزا ختم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
پچھلے سال چیلسی میننگ نے کینساس میں واقع فورٹ لیوین ورتھ جیل میں دو
دفعہ خود کشی کی کوشش کی تھی۔ اس سے پہلے وہ کچھ
عرصے تک وہ بھوک ہڑتال پر
تھیں، تاہم فوج کی جانب سے 'جینڈر ڈِسمورفیا نامی مرض کے علاج معالجے کی
سہولت فراہم کرنے پر رضامندی کے بعد چیسلی میننگ نے ہڑتال ختم کر دی تھی۔
چیلسی میننگ کے علاوہ صدر اوباما نے 209 قیدیوں کی سزائیں ختم کرنے کا
اعلان کیا ہے جبکہ 64 کو مکمل معافی بھی دی ہے۔ صدر اوباما نے اپنے
دورِحکومت میں اب تک 1385 سزائیں ختم کی ہیں جبکہ 212 کو مکمل معافی دی ہے۔لیکن صدر اوباما کے ناقدین نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کے
جان مکین نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک بہت بڑی غلطی ہے اور اس سے جاسوسی کے اور
واقعات رونما ہوں گے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال ریان نے بھی اس
فیصلے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک شرمناک فیصلہ ہے اور چیلسی میننگ
نے امریکی عوام کی زندگی خطرے میں ڈالی تھی۔ امریکی قانون کے مطابق عام
معافی سے نہ صرف سزا ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس فرد کی سماجی آزادیاں بھی بحال
ہو جاتی ہیں۔ سزا ختم ہونے کے فیصلے سے جیل سے آزادی تو ہو جاتی ہے لیکن
سماجی آزادیاں اور کچھ قانونی پابندیاں برقرار رہتی ہیں۔